“انسانی معاشرے دو چیزوں پر چلتے ہیں انصاف اور اخلاقی قوت پر۔ جانوروں کا معاشرہ طاقت کی حکمرانی پر چلتا ہے۔ جس میں طاقتور قانون سے بالاتر ہوتا ہے جبکہ انسانوں کے معاشرے میں جب طاقت کے زور پر حکمرانی کی جاتی ہے تو وہ معاشرہ تباہ ہو جاتا ہے۔
اس حوالے سے میں تواتر سے مولانا رومی کے قول کا حوالہ دیتا ہوں: “جب اللہ نے تمہیں پر دیے ہیں تو چیونٹیوں کی طرح زمین پر رینگ کیوں رہے ہو”-
آج پاکستان میں جنگل کا قانون ہے جس نے انصاف اور جمہوریت کو نیست و نابود کر دیا ہے۔ اس ملک کے آزاد ججز کو پیچھے کر دیا گیا ہے اور سرکاری ججز کو آگے کر دیا گیا ہے۔ آج پاکستان میں کمزور کے پاس کہیں بھی جانے کا راستہ نہیں ہے۔
ایٹم بم سے قومیں تباہ نہیں ہوتیں بلکہ اخلاقیات کی گراوٹ قوموں کی تباہی کا باعث بنتی ہے۔ یہ انتہائی بےشرمی سے اخلاقیات اور جمہوریت کو تباہ کر رہے ہیں۔
مجھے زیر کرنے کیلئے جو ناروا سلوک میری اہلیہ کے ساتھ روا رکھا گیا ہے وہ پاکستان کی تاریخ میں گراوٹ کی اپنی مثال ہے۔ انتقام کے طور پر شیخ مجیب، ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف کی بیگمات کو بھی کبھی جیل کی کال کوٹھڑی میں نہیں دھکیلا گیا جیسے مجھ سے انتقام لینے کیلئے میری اہلیہ کیساتھ کیا گیا۔ بشریٰ بی بی کو 14 ماہ سے قید تنہائی میں انتہائی برے حالات میں رکھنے کے پیچھے صرف مجھے سزا دینا مقصود ہے۔ القادر جیسے بے بنیاد کیس میں سزا سنا کے بشریٰ بی بی کو ناحق جیل میں رکھا ہوا ہے جس میں ان پر اعانت کا الزام لگایا گیا ہے جبکہ القادر کیس ٹرائل میں پراسیکیوٹرز نے اعانت کا کبھی دعویٰ ہی نہیں کیا-
جنگل کے بادشاہ نے عہدے سے برطرفی کے بعد زلفی بخاری کے ذریعے بشریٰ بی بی کو پیغام پہنچایا کہ “آپا میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں”۔ مگر بشریٰ بی بی نے صاف انکار کر دیا کہ میرا سیاسی اور حکومتی معاملات سے کوئی تعلق نہیں لہذا میں ملاقات نہیں کرونگی۔ جس کا عاصم منیر یہاں اڈیالہ جیل میں تعینات کرنل کے ذریعے انتقام لے رہا ہے۔ غیر قانونی طور پر تعینات اس کرنل کے نزدیک عدالتی احکامات کی قطعاً کوئی حیثیت نہیں۔ عاصم منیر اب ذاتیات پر اتر آیا ہے، اسی کی ایماء پر میری اور بشریٰ بی بی کی چار ہفتوں سے شیڈول ملاقات بھی نہیں کروائی جارہی اور قیدیوں کو میسر دیگر بنیادی انسانی حقوق بھی مکمل معطل ہیں۔
تحریک انصاف واحد وفاقی سیاسی جماعت ہے۔ ہم ملک کو جوڑنے والے ہیں، ہم بحیثیت ملک کی سب سے بڑی وفاقی سیاسی قوت کے آئین کی بالادستی، قانون کی حکمرانی، عدلیہ کی آزادی، آزادی اظہار رائے، اور بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے سب کو ساتھ لے کر چلیں گے-
اس ملک کو غداری کے الزامات سے بہت نقصان اٹھانا پڑا- ماضی میں شیخ مجیب اور اکبر بگٹی کو غدار قرار دے کر ملک کا بہت نقصان کیا گیا۔ ماہ رنگ بلوچ اور ہم سب سیاسی لوگ ہیں، غداری کے لیبل لگانے سے ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
پیکا قانون کے ذریعے زبردستی اور اشتہارات کی ذریعے رشوت دے کر میڈیا کا منہ بند کر دیا گیا ہے۔ ناجائز 26ویں آئینی ترمیم کے بعد اب 27ویں آئینی ترمیم اسی مقصد کیلیے لائی جارہی ہے کہ “بادشاہ سلامت” کے سامنے کوئی آواز اٹھانے کی جرآت نہ کرے۔ جو بھی بادشاہ کے سامنے جھکے گا اسکے سارے کیسز معاف کر دیے جائیں گے اور جو بھی بادشاہ کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کرے گا اسکا مقدر جیل کی کال کوٹھڑی ہوگی۔ پاکستان میں جو بھی آزاد صحافی تھا بزور جبر یا تو اسے ملک بدری پر مجبور کر دیا گیا، چپ کرا دیا گیا یا اسے اٹھا لیا گیا۔ آزاد صحافیوں کیلئے جیسے زمین تنگ کر دی گئی انکی فیملیز کو جیسے ہراساں کیا گیا ملکی تاریخ میں اسکی نظیر ملنا بھی مشکل ہے۔
بے ضمیر، بے شرم چیف الیکشن کمشنر اسکندر سلطان راجہ نے بادشاہ سلامت کی بادشاہی کے قیام کیلئے بھرپور سہولت کاری کی۔
مفرور سزایافتہ نواز شریف، شہباز شریف اور آصف زرداری کے جعلی اکاؤنٹس سمیت کرپشن کے تمام کیسز معاف کر دئیے گئے۔ ڈاکٹر یاسمین راشد، شاہ محمود قریشی اور میرے دیگر پارٹی لیڈرز کا ایک ہی جرم ہے کہ وہ تحریکِ انصاف کا ساتھ نہیں چھوڑ رہے۔ اگر آج وہ پارٹی سے کنارہ کشی اختیار کرلیں یا مطلوبہ بیان دے دیں تو آج ہی انہیں ناجائز قید سے رہا کر دیا جائے گا۔
آج تک قوم کسی ناانصافی کو نہیں بھولی۔ جسٹس منیر کا ناجائز فیصلہ بھی قوم کی یادداشت میں تازہ ہے اور یہ قوم کبھی بھی قاضی فائز عیسیٰ کے انصاف کے منصب پر بدترین کردار کو فراموش نہیں کرے گی۔ قوم سب ججز کو دیکھ رہی ہے کہ کون تاریخ کی درست سمت میں آئین و قانون کے ساتھ کھڑا ہے اور کون جسٹس منیر اور قاضی فائز عیسیٰ کی طرح بادشاہ سلامت کے حکم کی بجا آوری میں قوم کے حقوق غصب کرنے کے درپے ہے۔
اسی طرح قوم تاریخ کی درست سمت میں کھڑے صحافیوں، وکیلوں اور سیاستدانوں کو بھی دیکھ رہی ہے کہ کون آئین، جمہوریت اور بنیادی انسانی حقوق کیساتھ کھڑا ہے اور کون بادشاہ سلامت کے حکم کی پیروی میں انہیں روند رہا ہے۔ جو سیاستدان لیلوں کی طرح اسٹیبلشمنٹ کی رسی سے لٹکے ہوئے ہیں قوم انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔”
چئیرمین پاکستان تحریکِ انصاف عمران خان کی اڈیالہ جیل میں وکلاء، کارکنان اور میڈیا سے گفتگو (۵ جون، ۲۰۲۵)
0 Comments